2025 اپریل
پاکستان سمیت دنیا بھر میں تمباکو نوشی صحت کا ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے کیوں کہ معاشرے میں اس کی جڑیں گہری ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگوں میں تمباکو کے استعمال کے نقصانات کے بارے میں آگہی بڑھی ہے مگر اس کے باوجود یہ ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ خاص طور پر ان نوجوانوں کے لئے جو اکثر دوستوں کے دباؤ اور میڈیا کے اثر کا شکار ہوتے ہیں۔
والدین بنیادی طور پر بچوں کے نگہبان اور رول ماڈل ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے سگریٹ نوشی کے بارے میں اپنے بچوں کی ذہن سازی کی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے۔ ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس مضر صحت عادت سے اپنے بچوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ والدین نہ صرف بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں بلکہ وہ ان کے مستقبل کے بھی معمار ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کی رہنمائی اور کڑی نگرانی بچوں میں صحت مند سوچ اور عادات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں ہر پانچ میں سے دو سگریٹ نوش کم عمری میں سگریٹ پینا شروع کر دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ 40 فیصد نوجوان جنہوں نے کبھی تمباکو نوشی کی ہے انہوں نے کم عمری میں سگریٹ کا استعمال شروع کیا۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 37.8 فیصد نوجوان عوامی جگہوں پر اور21 فیصد گھروں میں سیکنڈ ہینڈ سموکنگ(جب سگریٹ نوش تمباکو کو جلاتے ہیں تو اس سے جو دھواں پیدا ہوتا ہے اس میں خطرناک کیمیائی مادے ہوتے ہیں۔یہ دھواں جب ایسے افراد پر پڑتا ہے جو تمباکو استعمال نہیں کرتے تو اس سے انہیں بھی نقصان پہنچتا ہے۔ یہ سیکنڈ ہینڈ سموکنگ کہلاتا ہے) کا شکار ہیں۔ یہ تشویشناک صورت حال ہے جو پاکستان میں تمباکونوشی پر قابو پانے کی کوششوں کی ناکامی کا مظہر ہے۔
پاکستان میں تمباکو کی مصنوعات وسیع پیمانے پر قابل رسائی ہیں او ر تمباکو کے استعمال کو اکثر ایک سماجی قدر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں یہ رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔ دوسری طرف شہری علاقوں میں عوامی مقامات پر تمباکو کے استعمال میں کمی لانے اور اس کی تشہیر کو کنٹرول کرنے کی کوششیں ہوئی ہیں مگر متعلقہ قوانین پر عمل درآمد کمزور ہے۔ قوانین کے نفاذ کے فقدان کا مطلب یہ ہے کہ عوامی مقامات پر جہاں جہاں لوگ تمباکو استعمال کرتے ہیں وہاں بچے اور نوجوان اس کے اثرات سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ فلموں اور ڈراموں میں فیشن کے طور پر تمباکونوشی کو فروغ دیا جاتا ہے اور ایسی محفلوں کا اہتمام ہوتا ہے جس میں تمباکونوشی عام ہوتی ہے۔ ان نکات سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ نوجوان کن وجوہات کی بناء پر تمباکونوشی کے استعمال پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔
والدین اپنے بچوں کو سگریٹ نوشی سے بچانے کے لیے پیشگی اقدامات اٹھاسکتے ہیں۔ انہیں اپنے بچوں کے ساتھ تمباکو نوشی سے منسلک صحت کے خطرات جیسے سانس کی بیماریوں، دل کے مسائل اور کینسر پر کھل کر بات کرنی چاہیے۔گفتگو میں بچے کی عمر اور سمجھ بوجھ کا لحاظ رکھا جائے تو پیغام بہتر طور پر پہنچانے میں مدد ملتی ہے۔
والدین کا سگریٹ نوشی کے بارے میں رویہ بچوں کو بہت متاثر کرتا ہے۔ جو والدین تمباکو کے استعمال سے پرہیز کرتے ہیں وہ جب اپنے بچوں کو اس سے بچنے کا مشورہ دیتے ہیں تو ان کی بات میں زیادہ وزن ہوتا ہے۔
والدین اپنے بچوں کے ساتھ بھروسہ مند تعلقات کو فروغ دینے سے ایک ایسا ماحول بھی بنا سکتے ہیں جہاں بچے ساتھیوں کے دباؤ یا تمباکو نوشی سے متعلق انہیں پیش آنے والے مسائل پر گفتگو کریں اور خود کو اس دباؤ سے نکالیں۔ بچوں کے مسائل کو سمجھنے اور مؤثر طریقے سے ان کی رہنمائی کے لیے بات چیت کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔
والدین کو نظر رکھنی چاہیے کہ ان کے بچے کس قسم کا میڈیا استعمال کرتے ہیں اور ان کے دوست کیسے ہیں۔ دو چیزیں بچوں کو تمباکونوشی سے بچانے میں مددگار ہو سکتی ہیں۔والدین اپنے بچوں کو ایسے ماحول سے دور رکھیں جہاں تمباکونوشی کا رجحان ہو۔ دوسرا یہ کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے بچے ایسے ساتھیوں کے ساتھ وقت گزاریں جو صحت کو اہمیت دیتے ہوں۔
کھیل کود، فنون، اور معاشرتی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے جسمانی اور ذہنی صحت میں بہتری آتی ہے۔ ایسی سرگرمیوں میں شمولیت سے بچوں کو ان کا مثبت تشخص اُجاگر کرنے اور نقصان دہ عادات کا سہارا لیے بغیر مقصد تلاش کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ پاکستان کے تناظر میں بات کریں تو والدین، سکولوں اور معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان تعاون سے بچوں میں سگریٹ نوشی کی روک تھام کی کوششوں میں تیزی آسکتی ہے۔ سکول تمباکو نوشی کی روک تھام سے متعلق معلومات کو اپنے نصاب کا حصہ بنا کر اہم کردار ادا کر سکتے ہیں جبکہ والدین اور اساتذہ باہمی اشتراک سے آگاہی مہم بھی چلا سکتے ہیں۔ کمیونٹیز، خاص طور پر دیہی علاقوں میں، تمباکو کے استعمال کی روک تھام کے لئے ورکشاپوں اور پروگراموں کا انعقاد مفید ثابت ہو سکتا ہے۔
بچوں میں تمباکو نوشی کے خلاف جنگ کوئی تنہا کوشش نہیں ہے۔ اس کے لیے والدین کی فعال شرکت، سکولوں، کمیونٹیز اور حکومت کے تعاون کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی منفرد ثقافتی اور سماجی حرکیات کو سمجھنے کی مدد سے والدین اپنے بچوں کو تمباکو کی نقصان دہ رغبت سے بچانے کے لئے مؤثر حکمت عملی بنا سکتے ہیں۔ اس طرح وہ ایک صحت مند اور تمباکو سے پاک نسل کی پرورش میں مدد کرتے ہیں۔ ایسی نسل جو معلومات کی بنیاد پر زندگی کو بہتر بنانے کے بارے میں فیصلہ کرنے کے قابل ہو۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ والدین کی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالے اور نوجوانوں کے لئے سگریٹ تک رسائی کو غیر قانونی قرار دے۔ پاکستان اس سلسلے میں نیوزی لینڈ کی پیروی کرسکتا ہے۔ نیوزی لینڈ نے ایک اہم قانون نافذ کیا ہے جس کے تحت 31 دسمبر 2008 کے بعد پیدا ہونے والے ہر فرد کے لئے سگریٹ کی فروخت پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ یہ قانون تمباکو نوشی سے پاک نسل بنانے اور ملک میں تمباکو کے استعمال کی شرح کو صفر تک لانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ یہ قانون اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ 31 دسمبر 2008 کے بعد پیدا ہونے والے افراد اپنی زندگی میں قانونی طور پر تمباکو کی مصنوعات کبھی نہیں خرید سکیں گے۔ برطانیہ میں بھی ایسی ہی پالیسی زیر غور ہے۔ وہاں ایک مجوزہ بل پیش کیا گیا ہے جس کا مقصد 1 جنوری 2009 کو یا اس کے بعد پیدا ہونے والے افراد کو تمباکو کی مصنوعات کی فروخت پر پابندی لگانا ہے۔ اگر یہ بل منظور ہو جاتا ہے تو یہ پالیسی ہر سال تمباکو نوشی کی قانونی عمر کو آہستہ آہستہ بڑھائے گی۔