2025 مئی
مئی کا مہینہ شروع ہو چکا ہے جو انسداد تمباکونوشی کے لئے کی جانے والی کوششوں کی وجہ سے اہمیت کا حامل ہے۔”ورلڈ نو ٹوبیکو ڈے“ ہر سال 31 مئی کو منایا جاتا ہے لہذا یہ ضروری ہے کہ اس موقع پر پاکستان میں تمباکو نوشی کے پھیلاؤ کا جائزہ لیا جائے۔ بدقسمتی سے ملک میں تمباکو نوشی کا پھیلاؤ صحت کا ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت ملک میں بالغ افراد میں تمباکو کے استعمال کی شرح 20.2 فیصد ہے۔ ان تمباکونوشوں میں سے تقریباً ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ سگریٹ نوش ہیں۔ تمباکو کے استعمال کا نظامِ صحت پر بھی زیادہ بوجھ پڑتا ہے۔
یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان تمباکو سے پاک ملک بننے کی راہ پر کیسے گامزن ہو سکتا ہے! عام طور پر اُس ملک کو تمباکو سے پاک سمجھا جاتا ہے جہاں تمباکونوشی کی شرح 5 فیصد سے کم ہو جائے۔ وہ ممالک جنہوں نے تمباکو سے پاک منزل کی جانب امید افزا پیش رفت کی ہے ان میں نیوزی لینڈ اور سویڈن شامل ہیں۔ نیوزی لینڈ نے ملک کو اسی سال کے آخر تک تمباکو سے پاک کرنے کا ہدف رکھا ہے جب کہ سویڈن دنیا کا واحد ملک ہے جہاں تمباکونوشی کی شرح سب سے کم ہے۔
تمباکو نوشی سے پاک مستقبل کے حصول کے لئے کسی ملک کو کئی اہم اقدامات اٹھانا پڑتے ہیں۔ سب سے پہلے تو تمباکونوشی کے خاتمے کے جامع قوانین بنانے چاہیئں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں وفاقی اور صوبائی سطح پر ٹوبیکو کنٹرول کے جامع قوانین کا فقدان ہے۔ پاکستان نے انسداد تمباکونوشی اور تمباکو کا استعمال نہ کرنے والے افراد کے تحفظ کا سن 2002 کے آرڈیننس کے بعد کسی قسم کی قانون سازی نہیں کی۔ اس آرڈیننس کے تحت عوامی مقامات پر تمباکو نوشی منع ہے جب کہ تمباکو کے اشتہارات اور نابالغ افراد کو تمباکو کی مصنوعات کی فروخت پر بھی پابندی عائد ہے۔ اس آرڈیننس کی ایک کمزوری کڑی یہ ہے کہ اس میں تمباکو کے استعمال کی روک تھام کی خدمات و سہولیات کا ذکر نہیں ہے حالانکہ تمباکو نوشی کے پھیلاؤ خصوصی طور پر بالغ افراد میں تمباکو کے استعمال کو کم کرنے میں یہ خدمات و سہولیات کافی مؤثر ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق تمباکو کی مصنوعات پر زیادہ ٹیکس لگانے سے ان کے استعمال کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ پاکستان نے بھی فروری 2023 میں مقامی طور پر تیار ہونے والے سگریٹ کے برانڈز پر ٹیکس میں اضافہ کیا مگر غیر قانونی اور سمگل ہونے والے سگریٹ، قانونی دائرے میں کام کرنے والی سگریٹ کی صنعت کو کافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اس شعبے کی کُل قابل ٹیکس آمدنی کا تقریباً 98 فیصد حصہ یہی صنعت دیتی ہے مگر اسے ٹیکس نیٹ سے باہر سگریٹ کی غیر قانونی مارکیٹ کے پھیلاؤ کی وجہ سے دباؤ کا سامنا ہے۔
تمباکو کے اشتہارات پرسخت پابندیاں لگانے سے اس کی ترویج روکنے میں مدد ملتی ہے۔ پاکستان نے بھی سگریٹ کے ہر قسم کے اشتہارات پر کامیابی کے ساتھ مکمل طور پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ وہ دن گئے جب سگریٹ کے برانڈز کھیلوں کے بڑے پروگرام سپانسر کیا کرتے تھے۔
گو کہ تمباکو نوشی ترک کرنے کے مؤثر پروگرام تمباکو نوشوں کے لئے اپنی اس عادت پر کامیابی سے قابو پانے میں مددگار ہیں مگر پاکستان اس قسم کی مدد فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوا ہے۔ملک میں تمباکونوشی ترک کرنے کے باقاعدہ پروگرام، صلاح مشورے کی خدمات اور قابل رسائی نکوٹین ریپلیسمنٹ تھراپی (این آر ٹی) کا فقدان ہے۔ سرکاری ہسپتال شاذ ونادر ہی تمباکونوشی ترک کرنے کی خدمات و سہولیات فراہم کرتے ہیں جب کہ نجی سطح پر یہ کافی مہنگی ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ تمباکونوشی ترک کرنے کے بارے میں آگہی کا فقدان اور حکومت کی محدود فنڈنگ سے یہ مسئلہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ جدید خطوط پر قائم ہیلپ لائن اور پیشہ وارانہ مشاورت کا کوئی انتظام نہ ہونے کی وجہ سے سگریٹ نوشی ترک کرنے میں کامیابی کی شرح میں مزید کمی آتی ہے۔
آج مواصلاتی ٹیکنالوجی کی مدد سے بڑے پیمانے پر آبادی تک فوری رسائی کے کئی ذرائع موجود ہیں مگریہ بات واضح ہے کہ تمباکو نوشی کے نقصانات کے بارے میں عوام میں آگہی پیدا کرنے کے پروگرام نہ ہونے کے برابر ہیں۔
گزشتہ ایک دہائی سے پاکستان میں نکوٹین کی متبادل مصنوعات بھی زیر استعمال ہیں جن میں الیکٹرانک سگریٹ، ویپ، نکوٹین پاؤچز اور ہیٹڈ ٹوبیکو پروڈکٹس (وہ مصنوعات جن میں تمباکو کو جلایا نہیں مگر گرم کیا جاتا ہے) شامل ہیں مگر ان کے استعمال کے لیے تاحال قواعد و ضوابط نہیں بنائے جا سکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صحت کے حکام ان مصنوعات کے محفوظ ہونے کا جائزہ لے سکتے ہیں اور نہ مطلوبہ معیار برقرار رکھنے کا تقاضا کرسکتے ہیں جس کا نتیجہ نقصان کو کم کرنے کی کوششوں کے متاثرہونے کی صورت میں نکلتا ہے۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ایک منظم پالیسی متعارف کرائی جائے تو اس سے صارفین کے تحفظ کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ سگریٹ نوشی کے پھیلاؤ کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ فی الوقت مایوس کن صورت حال ہے۔ اگر ہم صحت مند پاکستان کا حصول یقینی بنانا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ موجودہ صورت حال میں تبدیلی لے آئے۔
پاکستان کو تمباکو نوشی سے پاک مستقبل کے حصول کے لئے اپنی حکمت عملی کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر ٹوبیکو کنٹرول سے متعلق نئے قوانین فوری طور پر بنانے چاہیئں تاکہ ٹیکس اور تمباکو کی متبادل مصنوعات کے استعمال کے لئے قواعد وضوابط بنانے جیسے مسائل کو حل کیا جا سکے۔
اس کے علاوہ صوبوں کے پاس ٹوبیکو کنٹرول کے اپنے قوانین ہونے چاہیئں کیوں کہ 2010 میں 18ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد صحت کا شعبہ صوبوں کے پاس چلا گیا ہے مگر اس کے باوجود صوبے آج تک ٹوبیکو کنٹرول کے اپنے قوانین نہیں بناسکے۔ ٹوبیکو کنٹرول کے جامع قوانین بنائے جائیں اور ان پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے تو اس سے پاکستان کو تمباکو سے پاک مستقبل کی جانب پہلا قدم اٹھانے میں مدد ملے گی۔
دنیا سگریٹ کے دھوئیں کے بغیر مستقبل کی طرف بڑھ رہی ہے اور وہ مستقبل دور نہیں ہے۔ پاکستان میں تمباکو نوشی کا خاتمہ ممکن ہے اور یہ ہدف مستقبل قریب میں حاصل کیا جا سکتا ہے۔