ARI Radio Programs
Pakistan Alliance for Nicotine and Tobacco Harm Reduction (PANTHR)

تمباکونوشی کے خاتمے کیلئے عملی اقدامات ناگزیرہیں

2025 جولائی

پاکستان میں کئی دہائیوں تک انسداد تمباکونوشی کی کوششوں کے باوجود تمباکو کا استعمال صحت عامہ کو لاحق خطرات میں سے بدستور ایک خطرہ ہے۔ گو کہ آگاہی مہمات نے تمباکو کے استعمال کے خطرات کو کامیابی کے ساتھ اُجاگر کیا ہے مگر قوانین پر عمل درآمد کے فقدان اور تمباکونوشی ترک کرنے میں کارآمد خدمات و سہولیات سے استفادہ نہ کرنے کی وجہ سے ملک میں تمباکو کے استعمال کا پھیلاؤ پریشان کن حد تک بڑھا ہے۔

پاکستان کا شمار ان 15 ممالک میں ہوتا ہے جہاں تمباکو کا سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق اس وقت ملک میں تمباکونوشوں کی تعداد تین کروڑ دس لاکھ سے زیادہ ہے۔ خطرناک بات یہ ہے کہ تقریباً 40 فیصد بالغ افراد اور 55  فیصد بچے روزانہ کی بنیاد پر سیکنڈ ہینڈ سموکنگ کا شکار ہوتے ہیں۔ سیکنڈ ہینڈ سموکنگ سے مراد یہ ہے کہ تمباکو کا استعمال نہ کرنے والے افراد دوسروں کے سگریٹ پینے سے مضر صحت مادوں کا شکار ہوں۔

تمباکو نوشی صحت کیلئے بہت زیادہ نقصان دہ ہے کیونکہ یہ کینسر، زیابیطس، ٹی بی، دائمی کھانسی، پھیپھڑوں اور دل کی بیماریوں کو لاحق کرنے کا سبب بنتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں تمباکو کے استعمال سے ایک سال کے دوران 80 لاکھ سے زیادہ جبکہ سیکنڈ ہینڈ سموکنگ سے 12 لاکھ اموات ہوتی ہیں۔ پاکستان میں تمباکو نوشی سے ایک سال میں ہونے والی اموات کی تعداد فی 100,000 افراد میں 91.1 ہے جو کہ جنوبی ایشیائی اور عالمی اوسط سے زیادہ ہے۔

پاکستان میں ٹوبیکو کنٹرول کا سفر 1997 میں الیکٹرانک میڈیا پر تمباکو کے اشتہارات پر پابندی کے ساتھ شروع ہوا۔ اس کے بعد پاکستان نے ٹوبیکو کنٹرول پر عالمی ادارہ صحت کے فریم ورک کنونشن (ایف سی ٹی سی) کی توثیق کی اور تمباکونوشی پر قابو پانے کیلئے متعدد اقدامات اٹھائے جن میں سگریٹ کے پیکٹ پر صحت سے متعلق تصویری انتباہات، تمباکو کی مصنوعات پر ٹیکس میں اضافہ، اور عوامی مقامات سمیت تعلیمی اداروں کے قریب سگریٹ نوشی پر پابندی شامل ہیں۔

یہ اہم اقدامات ہیں مگر ان پر عمل درآمد کا فقدان ہے جس کی وجہ سے تمباکو مصنوعات کی غیر قانونی تجارت پروان چڑھ رہی ہے، تصویری انتباہات کی شرائط پوری نہیں کی جارہی ہیں اور پابندی کے باوجود کھلے سگریٹ کی فروخت بھی بدستور جاری ہے۔ تمباکو مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے صارفین کو سستے برانڈز کے استعمال پر منتقل کر دیا ہے جس سے تمباکو کے استعمال کے روک تھام کی کوششیں متاثر ہو رہی ہیں۔

پاکستان میں تمباکو نوشی کی روک تھام کیلئے مدد کے مناسب نظام کا فقدان ہے جو ٹوبیکو کنٹرول کی کوششوں کی ایک بڑی کمزوری ہے۔ اگر تمباکونوش اپنی اس عادت پر قابو نے کی کوشش بھی کریں تو ان میں سے بیشتر افراد کو سگریٹ نوشی ترک کرنے کے قومی مراکز، رعایتی کونسلنگ یا تربیت یافتہ ماہرین صحت کی رہنمائی جیسی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ عوام کی آگہی کیلئے جو مہمات چلائی جاتی ہیں، ان میں شاذ و نادر ہی ایک قابل عمل راستے کے طور پر ترک کرنے کی کوشش کا ذکر ہوتا ہے۔ اسی طرح جب ماہرین صحت سے صلاح مشورہ لیا جاتا ہے تو وہ بھی خال خال ہی تمباکونوشی ترک کرنے کے بارے میں رہنمائی یا دوائی استعمال کرنے کی تجویز دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ سگریٹ نوشی کو بُرا سمجھنے کے ساتھ ساتھ تمباکونوشوں سے بھی فاصلہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور انہیں بُرا سمجھتے ہیں۔ اس سے سگریٹ نوشی ترک کرنے کیلئے مدد لینے میں تمباکونوشوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور وہ اپنی اس عادت پر قابو پانے کیلئے کسی سے مدد لینے یا اس سلسلے میں بات کرنے سے بھی ہچکچاتے ہیں۔پاکستان میں ایسے تمباکونوش بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں جو گھر والوں سے چُپکے سگریٹ پیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کُھل کر اس سلسلے میں بات کرنے یا مدد طلب کرنے سے گریزاں ہوتے ہیں۔

تمباکو سے پاک پاکستان کا حصول ممکن ہے مگر یہ مسئلہ ٹوبیکو کنٹرول کے پورے نظام میں اصلاحات کا متقاضی ہے۔ پاکستان کو تمباکونوشی کے مکمل خاتمے کیلئے ایک جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل اقدامات اہم ہیں:

  • تمام اضلاع اور صوبوں میں تمباکو نوشی کے خاتمے کے مراکز کا قیام عمل میں لایا جائے·
  • کونسلنگ اور دوائی کے ذریعے تمباکونوشوں کی مدد کرنے کیلئے ماہرین صحت کی تربیت کا انتظام کیا جائے·
  • نکوٹین ریپلیسمنٹ تھراپی اور نسخے پر ملنے والی ادویات پر سبسڈی دی جائے·
  • معمول کی طبی مشاورت میں سگریٹ نوشی ترک کرنیکی رہنمائی کا اہتمام کیا جائے·
  • صرف نقصانات نہیں،سگریٹ چھوڑنے اور اس کے فوائد سے متعلق آگہی پیغامات کا سلسلہ بڑھایا جائے·

تمباکو کا استعمال محض طرز زندگی کا انتخاب نہیں ہے بلکہ یہ ایک پیچیدہ عادت ہے جس پر قابو پانے کیلئے معاون انفراسٹرکچر اور ہمدردانہ پالیسی کی ضرورت ہے۔ اگر تعزیری قوانین کی بجائے شواہد پر مبنی اقدامات پر توجہ دی جائے تو پاکستان تمباکو کے استعمال سے ہونے والی بیماریوں اور اموات میں ڈرامائی طور پر کمی لا سکتا ہے۔

یہ عمل کرنے کا وقت ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ تمباکو نوشی کی روک تھام کو اب پالیسی سطح پر بات چیت تک محدود رکھنے کی بجائے صحت عامہ کی حکمت عملی کا محور بنا یا جائے۔ اس سے تمباکونوشی ترک کرنا ممکن ہی نہیں یقینی بن جائے گا۔

Back






Facebook Twitter Instagram